حج و عمرہزیاراتمکہ مکرمہ

تعمیر کعبہ تاریخ کی نظر میں

مشہور تاریخی روایات کے مطابق کعبہ کی تعمیر متعدد مرتبہ کی گئی۔ اس کی پہلی تعمیر فرشتوں نے کی جو مرور زمانہ کے ساتھ ختم ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق سیدنا ابراہیم علیہ الصلوة والسلام نے اسی جگہ پر اس کی دوبارہ تعمیر سیدنا اسماعیل علیہ الصلوة واالسلام کی مدد سے کی۔ اس موقع پر کعبہ سادہ پتھروں کی عمارت تھی جو بغیر سیمنٹ وغیرہ کے ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہوئے تھے۔ اس کی تیسری تعمیر قریش نے کی جو سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہونے کے ناتے اس کے متولی تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے اعلان نبوت سے تقریباً پانچ سال قبل بھی کعبہ کی تعمیر کی گئی تھی۔ اس موقع پر مختلف عرب قبائل نے اس میں حصہ لیا۔ ہر قبیلے کے یہ خواہش تھی کہ حجر اسود نصب کرنے کی سعادت اسے حاصل ہو۔ نوبت کشت و خون تک جا پہنچی۔ بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ اگلی صبح جو شخص کعبہ میں داخل ہو گا، اس کا فیصلہ قبول ہوگا۔ اگلے دن تمام قبائل کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ کعبہ میں سب سے پہلے داخل ہونے والے شخص محمد بن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) ہیں۔ سب ہی لوگ آپ کی صداقت، امانت اور دیانت دارانہ فیصلوں کے قائل تھے۔ آپ نے اس قضیے کا فیصلہ یہ فرمایا کہ اپنی چادر بچھا کر اس پر حجر اسود رکھ دیا اور تمام قبائل کے نمائندوں کو اس کے کنارے پکڑا دیے۔ انہوں نے چادر اٹھائی اور آپ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود نصب فرما دیا۔ اس طرح سب لوگ مطمئن ہوگئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اعلان نبوت سے قبل حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کو عرب معاشرے میں کیا مقام حاصل تھا۔
قریش کی تعمیر میں کچھ رقم کم پڑ گئی تھی کیونکہ انہوں نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ صرف حلال کمائی ہی کعبہ کی تعمیر میں استعمال ہوگی۔ اس وجہ سے کعبہ کی تعمیر مکمل ابراہیمی بنیادوں پر نہ ہوسکی۔ اس کا کچھ حصہ باہر رہ گیا جس کے گرد دیوار بنا دی گئی۔ یہ دیوار حطیم کہلاتی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی یہ خواہش تھی کہ آپ اسے دوبارہ ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر فرمائیں ۔
صحیحین کی روایت کے مطابق آپ نے فتح مکہ کے موقع پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس خواہش کا اظہار بھی کیا اور یہ بھی فرمایا کہ ، ”ابھی تمہاری قوم کے لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں۔ اگر ان کے مرتد ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں ایسا کر گزرتا۔“ سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلافت کے زمانے میں شامی افواج کی سنگ باری سے کعبہ کی چھت جل گئی تھی۔ آپ نے اس کی تعمیر حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی خواہش کے مطابق ابراہیمی بنیادوں پر کی۔
آپ کی شہادت کے بعد عبد الملک بن مروان نے آپ کے کئے ہوئے اضافوں کو گرا کر اس کی صورت قریش کی تعمیر کی طرح کردی۔ بعد میں جب اسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث معلوم ہوئی تو اسے اس کا افسوس ہوا لیکن اس نے عمارت کو ایسے ہی رہنے دیا۔ ولید بن عبد الملک کے دور میں اس کے حکم پر کعبہ کے دروازے، پرنالے اور اندرونی ستونوں پر سونے کا کام کیا گیا۔ بعد میں کئی بادشاہوں نے کعبہ کی تعمیر کی خواہش کا اظہار کیا لیکن علماءنے اس کی سختی سے مخالفت کی کیونکہ اس صورت میں یہ ایک کھیل بن جاتا اور جس کا جی چاہتا ، کعبہ کو گرا کر اس کی تعمیر کرتا رہتا۔

متعلقہ تحریریں

Back to top button
error: Content is protected !!