ارض حجاز مقدس کے کئی پہاڑ نُور نبوت کے عینی شاہد اور اس سرزمین پرظہور اسلام کے گواہ ہیں۔ انہی پہاڑوں میں ’جبل النور‘ بھی ہے جسے پرانے دور میں جبل حرا کہا جاتا تھا اسی پہاڑ کے اوپر غار حرا واقع ہے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت سے قبل عبادت کے لیے جایا کرتے تھے یہی وہ مقام مقدس ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ پہلی وحی لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہاڑ کو ’جبل النور‘ کا لقب دیا۔
یہ پہاڑی مسجد حرام سے شمال مشرق میں 642 میٹر بلند ہے۔ اس کی چوٹی اونٹ کی کوہان کی طرح بلند ہے۔جبل نور مکہ سے طائف اور پھر ریاض جانے والی سیل ہائی وے کے کنارے واقع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے دور میں بھی یہ راستہ ہی رہا ہوگا۔ آپ کے گھر سے پیدل یہاں تک آٹھ دس کلومیٹر کا فاصلہ ہوگا۔ جبل نور کا سلوپ کافی زیادہ ہے۔ شروع میں اس پر چڑھتے ہوئے راستہ 45 کے زاویے پر اٹھتا ہے اور درمیان میں جا کر تقریباً 60 کے زاویے پر مڑ جاتا ہے۔ پہاڑی کے درمیان تک روڈ بنا ہوا ہے جہاں گاڑی جا سکتی ہے۔ آگے پیدل ٹریک ہے۔
راستے کے شروع میں سعودی حکومت کی جانب سے ایک بورڈ لگایا گیا ہے جس پر عربی ، انگریزی، اردو، فرنچ اور ایک آدھ اور زبان میں یہ تحریر درج ہے۔کہ ”برادران اسلام! نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے اس پہاڑی پر چڑھنا، اس پر نماز پڑھنا، اس کے پتھروں کو چھونا، اس کے درختوں پر گرہیں لگانا، اس کی مٹی، پتھر اور درختوں کی شاخوں کو بطور یاد مشروع نہیں کہا ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی سنت کی اتباع ہی میں ہم سب کے لئے بھلائی ہے۔ اس لئے آپ اس کی مخالفت نہ کریں۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے، ”اللہ کے رسول تم سب کے لئے بہترین نمونہ ہیں۔“
حقیقت یہ ہے کہ ہمیں دین کو اسی طرح لینا چاہیئے جیسا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے دیا ہے۔ آپ نے کبھی بھی جبل نور پر چڑھنے، اس پر نماز پڑھنے ، اس کے پتھروں کو چھونے ، اس کی مٹی اور پتھر کو ساتھ لے جانے کا حکم نہیں دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہم سے کہیں زیادہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے محبت کرنے والے تھے۔ انہوں نے بھی آپ کی زندگی میں یا آپ کے بعد ایسا نہیں کیا۔ اس لحاظ سے یہ اعمال یقینی طور پر دین اور شریعت کا حصہ نہیں ہیں۔ ہاں دین اور شریعت سے ہٹ کر ان کی ایک تاریخی اہمیت ضرور ہے جو کسی بھی بڑی شخصیت کے ساتھ کسی چیز کی نسبت ہونے سے پیدا ہو ہی جاتی ہے۔
ہمارا اس پہاڑ پر چڑھنے کا مقصد ان جگہوں کو دیکھنا ہونا چاہئے کہ جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے وقت گزارا تھا۔ ان جگہوں کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی حیات طیبہ اور آپ کے معمولات سامنے آتے ہیں ان جگہوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق کی بنا پر ایک جذباتی وابستگی بھی ہر مسلمان کو ہوتی ہے لیکن اس کو بہرحال دین اور شریعت کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیئے۔