زیاراتمکہ مکرمہ

حجراسود

حجرِ اسود وہ کالا پتھر ہے جو کعبہ کے مشرقی کونے میں  چاندی کے ایک فریم میں نصب ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حجرِاسود جنت کا پتھر ہے۔ پہلے وہ دودھ کی طرح سفید تھا پھر لوگوں کے گناہوں نے اسے کالا کر دیا۔یہ وہ تاریخی پتھر ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے مبارک جسموں سے مَس ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جس وقت خانہ کعبہ کی عمارت بن چکی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کہا کہ ایک پتھر لاؤ تاکہ اسے ایسے مقام پر لگا دوں جہاں سے طواف شروع کیا جائے۔ 
بعض تاریخی روایات کے مطابق اس پتھر کی تاریخ حضرت آدم علیہ السلام کے جنت سے ہبوط کے ساتھ ساتھ شروع ہوتی ہے۔ چنانچہ طوفانِ نوح کے وقت یہ پتھر بہہ کر کواہِ ابوقبیس پر چلا گیا تھا۔ اس موقع پر کواہِ ابوقبیس سے صدا بلند ہوئی کہ اے ابراہیم! یہ امت ایک مدت سے میرے سپرد ہے۔ آپ نے وہاں سے اس پتھر کو حاصل کر کے کعبہ کے ایک کونے میں نصب کر دیا اور کعبہ شریف کا طواف کرنے کے لیے اسے شروع کرنے اور ختم کرنے کا مقام ٹھہرایا۔
حاجیوں کے لیے حجراسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ لگانا یہ کام مسنون اور کارِ ثواب ہے۔ قیامت کے دن یہ پتھر ان لوگوں کی گواہی دے گا جو اللہ کے گھر کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور اسے ہاتھ لگا کر حج یا عمرہ کی شہادت ثبت کراتے ہیں۔
بعض روایات کی بنا پر عہدِ ابراہیمی میں پیمان لینے کا یہ عام دستور تھا کہ ایک پتھر رکھ دیا جاتا جس پر لوگ آ کر ہاتھ مارتے۔ اس کے معنیٰ یہ ہوتے کہ جس عہد کے لیے وہ پتھر گاڑا گیا ہے اسے انہوں نے تسلیم کر لیا ہے بلکہ اپنے دلوں میں اس پتھر کی طرح مضبوط گاڑ لیا، اسی دستور کے موافق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مقتدیٰ قوموں کے لیے یہ پتھر نصب کیا تاکہ جو شخص بیت اللہ شریف میں داخل ہو اِس پتھر پر ہاتھ رکھے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے توحیدِ الہٰی کے بیان کو قبول کر لیا۔ اگر جان بھی دینی پڑے گی تو اس سے منحرف نہ ہو گا، گویا حجراسود کا استلام اللہ تعالیٰ سے بیعت کرنا ہے۔ اس کی تمثیل کی تصریح ایک حدیث میں یوں آئی ہے:
"حضرت ابن عباس سے مرفوعا روایت ہے کہ حجراسود زمین میں گویا اللہ کا دایاں ہاتھ ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے مصافحہ کرتا ہے۔”(طبرانی)حضرت ابن عباس کی دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں:”حجراسود جنت سے نازل ہوا تو وہ دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا مگر انسانوں کی خطا کاریوں نے اسے سیاہ کر دیا۔”(ترمذی)اس سے حجراسود کی شرافت و بزرگی مراد ہے۔ایک روایت میں یوں آیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس تاریخی پتھر کو نطق اور بصارت سے سرفراز کرے گا، جن لوگوں نے حقانیت کے ساتھ توحیدِ الہٰی کا عہدکرتے ہوئے اسے چوما ہے ان کے حق میں یہ گواہی دے گا۔ (ترمذی)
ان فضائل کے باوجود کسی مسلمان کا یہ عقیدہ نہیں کہ یہ پتھر معبود ہے، یا اس کے اختیار میں نفع و ضرر ہے۔
حضرت عمر کے تاریخی الفاظ ("میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع۔ اگر میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے بوسہ نہ دیتا۔”) کے بارے میں علامہ طبری مرحوم لکھتے ہیں:”حضرت عمر نے یہ اعلان اس لیے کیا کہ اکثر لوگ بت پرستی سے نکل کر قریبی زمانے میں اسلام کے اندر داخل ہوئے تھے۔ حضرت عمر نے اس خطرے کو محسوس کر لیا کہ جاہل لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق پتھروں کی تعظیم ہے۔ اس لیے آپ نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ حجراسود کا استلام صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں کیا جاتا ہے ورنہ حجر اسود اپنی ذات میں نفع و نقصان پہنچانے کی کوئی طاقت نہیں رکھتا، جیسا کہ اہل جاہلیت کے لوگ بتوں کے بارے میں اعتقاد رکھتے تھے۔”
اسلامی روایت کی روشنی میں حجراسود کی حیثیت ایک تاریخی پتھر کی ہے جسے اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام نے خانہ خدا کی تعمیر کے وقت ایک "بنیادی پتھر” کی حیثیت سے نصب کیا۔ اس لحاظ سے دینِ حنیف کی ہزار ہا سالہ تاریخ اس پتھر کے ساتھ وابستہ ہو جاتی ہے۔ اہل اسلام اس کی جو بھی تعظیم استلام وغیرہ کی طرح کرتے ہیں وہ سب کچھ صرف اسی بنا پر ہے۔ ملتِ ابراہیمی کے اللہ کے ہاں مقبول ہونا اور مذہبِ اسلام کی حقانیت پر بھی یہ پتھر ایک تاریخی شاہد عادل کی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتا ہے جسے ہزار ہا سال کے بے شمار انقلابات فنا نہ کر سکے۔ وہ جس طرح ہزاروں برس پہلے نصب کیا گیا تھا، آج اسی شکل میں اسی جگہ تمام دنیا کے حوادث کا مقابلہ کرتے ہوئے موجود ہے۔ اسے دیکھنے سے، اسے چومنے سے ایک سچے مسلمان موحد کی نظروں کے سامنے دینِ حنیف کے چار ہزار سالہ تاریخی اوراق یکے بعد دیگرے الٹنے لگ جاتے ہیں۔ حضرت خلیل اللہ اور حضرت ذبیح اللہ علیہم السلام کی پاک زندگیاں سامنے آ کر معرفتِ حق کی نئی نئی راہیں دماغوں کے سامنے کھول دیتی ہیں۔ روحانیت وجد میں آ جاتی ہے۔ توحید پرستی کا جذبہ جوش مارنے لگتا ہے۔ حجراسود بنائے توحید کا ایک بنیادی پتھر ہے۔ "دعائے خلیل و نوید مسیحا” حضرت سید الانبیاء کی صداقت کے اظہار کے لیے ایک غیرفانی یادگار ہے۔
 اس مختصر سے تبصرے کے بعد کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشیں کر لینا چاہئے کہ مصنوعاتِ الٰہیہ میں جو چیز بھی محترم ہے وہ بالذات محترم نہیں ہے بلکہ پیغمبرِ اسلام کی تعلیم و ارشاد کی وجہ سے محترم ہے۔ اسی کلیہ کے تحت خانہ کعبہ، حجراسود، صفا ومروہ وغیرہ محترم قرار پائے۔ اسی لیے اسلام کا کوئی فعل بھی، جسے وہ عبادت یا لائقِ عظمت قرار دیتا ہو، ایسا نہیں ہے جس کی سند سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسطے سے حق تعالیٰتک نہ پہنچتی ہو۔ اگر کوئی مسلمان ایسا فعل ایجاد کرے جس کی سند پیغمبر علیہ السلام تک نہ پہنچتی ہو تو وہ فعل نظروں میں کیسا ہی پیارا اور عقل کے نزدیک کتنا ہی مستحسن کیوں نہ ہو، اسلام فورا اس پر بدعت ہونے کا حکم لگا دیتا ہے اور صرف اس لیے اسے نظروں سے گرا دیتا ہے کہ اس کی سند حضرت رسولِ خدا تک نہیں پہنچتی بلکہ وہ ایک غیر ملہم انسان کا ایجاد کیا ہوا فعل ہے۔

متعلقہ تحریریں

Back to top button
error: Content is protected !!